رواں سال بھی ٹیپو سلطان کی سالگرہ خاموشی اور بےاعتنائی سے گزر گئی ہم ٹیپو سلطان کو کیوں یاد نہیں کرنا چاہتے اس سوال کو جاننے کے لئے ہمیں ٹیپو سلطان کو جاننا پڑے گا۔
ٹیپو سلطان جنہیں انگریزمورخ شیرمیسور کے نام سے یاد کرتے ہیں انگریز سرکار کے نزدیک ایک ظالم حکمران تھا ۔ جوانگریز کے ہندوستان میں تسلط اور بالا دستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔
بہادری قومی غیرت اُسے اپنے والد حیدر علی سے ورثے میں ملی مدراس سے دو سو میل دور اپنی ریاست سر نگا پٹم کے قلعے میں ٹیپو سلطان اور انگریزفوج میں گھمسان کا رن پڑا۔
جس دلیری اور استقامت سے ٹیپو سلطان اور اُسکی افواج نے انگریز افواج کا مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے مقامی سطح پر تیار ہونے والی توپیں اور دیگر سامان ضرب و عصب اس جنگ کا حصہ تھے ٹیپو سلطان جنگ سے قبل فرانس کے حکمران نیپولین سے رابطہ میں تھا۔ اُسکی خواہش تھی کہ فرانس کے ساتھ مل کرسلطنت برطانیہ کو شکست دی جائے لیکن یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
ٹیپو سلطان کی افواج میں شیروں کا ایک دستہ بھی شامل تھا۔ آج بھی لندن کے وکٹوریہ میوزیم میں جنگ کی نایاب تصاویر موجود ہیں جس میں ایک شیر نے انگریز فوجی کو دبوچ رکھا ہے اور اُسکی خوف کے مارے جان نکل رہی تھی۔
ٹیپو سلطان یہ کہا کرتا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے لہذا اس قول عملی مظاہرہ کا جب وقت آیا تو اُس نے اگلے مورچوں پر لڑتے ہوئے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ وطن کی آزادی کی خاطر جان دیدی لیکن اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ انگریز افواج اُسے شکست نہ دے سکتی اگر نظام آف حیدرآباد کی سپاہ کا ایک دستہ انگریز افواج کا حصہ نہ بنتے۔
لہذا 1799 سے لے کر آج تک ہماری ہر شکست تقسیم کرو اور حکومت کرو کی حکمت عملی کی مرہون منت چلی اآرہی ہے۔
جب میں یہ سوچتا ہوں کہ ٹیپو سلطان کی اتنی بڑی قربانی کو ہم نے کیوں فراموش کر دیا تو مجھے چند روز قبل اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر یاد آتی ہے۔
روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی خبر کہ مطابق چوہدری نثار علی خان کے آبائی گاوں چک بیلی خان سے تعلق رکھنے والے شاہ حامد خان کوبرطانیہ کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس ملنے کی سو سالہ یاد گاری تقریب پاکستان آرمی کے زیر انتظام منائی گئی۔ پاک فوج کے اعلیٰ افسران نے ان کی قبر پر سلامی پیش کی پہلی جنگ عظیم کے شاہ حامد خان نے دشمن فوج کا بڑی دلیری سے مقابلہ کیا لہذا برطانوی حکومت نے 12اپریل 1916 کو وکٹوریہ کراس سے نوازا۔ تقریب میں پاکستان آرمی کے اعلیٰ افسران شریک ہوئے۔
میرا تعلق بھی چکوال کی تحصیل تلہ گنگ سے ہے ٹیپو سلطان کو دریافت کرنے قبل میں بھی اس تفاخر کا شکار رہا کہ چکوال برصغیر میں پہلے وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے مسلمان برطانوں فوجی کا ضلع ہے اور انگریز کی فوج میں بھرتی ہونے والے مسلمان مارشل ریس سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن جب مطالعہ پاکستان کا نصاب زمانہ طالب علمی میں پڑھا تو مزیدتضادات آشکار ہوتے چلے گئے۔کہ ایک جانب تو ہماری تاریخ میں یہ لکھا ہے کہ ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کی تو دوسری جانب ٹیپو سلطان کے بجائے وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے فوجی افسران ہمارےہیرو کیوں ہیں ؟؟؟ وہ جاگیردار اور پیر جنہوں نے انگریزوں سے لڑنے کے بجائے معمولی مفادات کے پیش نظرغلامی کو ترجیح دی اور اپنی قوم کا سودا کیا لیکن ہم ہر سال انکی برسی بڑی شان و شوکت سے مناتےہیں۔
آج بھی ہم ٹیپو سلطان کے نام پر کسی شہر کا نام نہ رکھ سکےآج بھی راولپنڈی کینٹ میں جنرل گریسی کے نام پر ایک سڑک منسوب ہے اگر ٹیپو سلطان ہمارے قومی نصاب میں جگہ نہ بنا سکا کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ ٹیپو سلطان ہمیں غیرت و حمیت کا درس دیتا ہے اُسکی ڈکشنری میں ڈیل کرنا اپنے بچوں کا آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک دولت کے انبار لگانا بیرون ملک جائیدادیں بنانا رٹائیرمنٹ کے بعد غیر ملکی ملازمت قبول کرنا اپنی نوکری کی خاطر قومی مفادات داؤ پر لگانا اور اپنی جان بچا کر میدان جنگ سے فرار ہونا اور سب سے بڑھ کر یہ اپنی مٹی سے غداری کرنا شامل ہی نہ تھا۔