Posted: 24 w

دُنیا میں سب سے پہلا "کیمرہ" ایجاد کرنے والا "ابنِ الہیثم" ھے ۔۔
دُنیا میں سب سے پہلا "کیلنڈر" ایجاد کرنے والا "عُمرخیام" ھے ۔۔
آپریشن سے قبل مریض کو "بےہوش" کرنے کا طریقہ متعارف کروانے والا "زکریاالرازی" ھے ۔۔
دُنیا میں "الجبرا" ایجاد اور متعارف کروانے والا "موسیٰ الخوارزمی" ھے ۔۔
سن 1957 میں "شیمپو" ایجاد کرنے والا "محمد" ھے ۔۔
زمیں پہ آنے والے "زلزلوں" کی سب سے پہلے سائنسی وجوہات بیان کرنے والا "ابنِ سینا" ھے ۔۔
کپڑااورچمڑا رنگ کرنے اور گلاس بنانے کیلئے "میگنیزڈائی آکسائد" کا استعمال متعارف کروانے والا "ابنِ سینا" ھے ۔۔
دھاتوں کی صفائی ، "سٹیل" بنانے کا طریقہ متعارف کروانے والا "ابنِ سینا" ھے ۔۔
مصنوعی "دانت" لگانے کا طریقہ متعارف کروانے والا "ابوالقاسم الزہروی" ھے ۔۔
ٹیڑھے "دانتوں" کو سیدھا کرنے اور خراب "دانت" نکالنے کا طریقہ متعارف کروانے والا "ابوالقاسم الزہروی" ھے ۔۔
دُنیا میں سب سے پہلے "ادویات" بنانے کے علم متعارف کروانے والا "ابنِ سینا" ھے ۔۔
دُنیا میں کششِ ثقل کی درست پیمائش کا طریقہ متعارف کروانے والا "عُمرخیام" ھے ۔۔
آنکھ ، ناک ، کان اور پتے کا "آپریشن" سے علاج متعارف کروانے والا "ابوالقاسم الزہروی" ھے ۔۔
دنیا میں "سرجری" کیلئے استعمال ھونے والے تین اہم ترین آلات متعارف کروانے والا "ابوالقاسم الزہروی" ھے ۔۔
دُنیاوی علموں میں "علمِ اعداد" اور "جدیدریاضی" کی بنیاد رکھنے والا "یعقوب الکندی" ھے ۔۔
مریضوں کو دی جانے والی "ادویات کی درست مقدار" کا تعین کرنے والا "یعقوب الکندی" ھے ۔۔
دُنیا کو "آنکھ" پہ روشنی کے مُضراثرات کا بتانے والا "زکریاالرازی" ھے ۔۔
روشنی کی "رفتار" کا آواز کی "رفتار" سے تیز ھونے کا انکشاف کرنے والا "البیرونی" ھے ۔۔
دنیا کو "زمین چاند اور سیاروں" کی حرکات اور خصوصیات سے روشناس کرنے والا "البیرونی" ھے ۔۔
دُنیا کو "قُطب شمالی اور قُطب جنوبی" کی سمت کا تعین کرنے کے "سات طریقے" بتانے والا "البیرونی" ھے
علمِ ارضیات میں مغرب والوں کی زبان سے "بابائےارضیات" کہلائے جانے والا "ابنِ سینا" ھے ۔۔
دُنیا میں "ہائیڈروکلورک ایسڈ ، نائٹرک ایسڈ اور سفید سیسہ" بنانے کے طریقے بیان کرنے والا "ابنِ سینا" ھے..
کیمیکلز بنانے اور ایجاد کرنے میں "بابائےکیمیا" کہلائے جانے والا "جابر بن حیان" ھے..
دُنیا کو "روشنی کے انعکاس" اور بصارت میں "ریٹینا" کا مرکزی کردار متعارف کروانے والا "ابنِ الہیثم" ھے..
اور "سیاروں" کی حرکت کا درست تعین کرنے والا "نصیرالدین طوسی" ھے ۔۔
فلسفہ، تصوف ، کلام ، طب و دیگر صد ہائے علوم و فنون کے مسلم زرخیز ازھان کے نام و کارنامے مرتب کرنے لگوں تو دفتر کے دفتر رقم ھوں جائیں گے ۔
یہ سب مُسلمان سائنسدان ھی تھے اور تُم پوچھتے ھو کہ اِسلام نے آج تک دُنیا کو کیا دِیا ؟..جب ہمارا نظام غالب تھا ہم نے دنیا کو اس وقت کے لحاظ سے بہت کچھ دیا اج ہم مغلوب ہے تو کچھ نہیں کر پارہے .اسلیے نوجوانوں کو مایوسی سے باہر انا ہوگا اپنا نظام از سر نو دوبارہ قایم کرنا ہوگا..جن کا نظام غالب ہوتا ہے افکار وحیالات وا الات ٹیکنالوجی کلچر مذھب سب انکا چلتا ہے .اج اگر اپ چاھتے ہے کہ لوگ اسلام کی طرف ائے تو اسلام کا معاشی سیاسی معاشرتی نظام قایم کرنا ھوگا تب لوگ تمھارے سب چیزیں ماننے کےلیے تیار ہونگےجب اپ اپنا نظام قایم کریں گے دنیا اپکے افکار حیالات مذھب کلچر سب کے گرد گھومیں گے۔
مسلم ممالک کو علوم و فنون کے مراکز کا جال بچھانا چاہیے اور سرمایہ تعلیم و تربیت پہ صرف کرنا چاہیے تا کہ مسلم ممالک کے زرخیز ازھان مغربی ممالک میں مواقع پا کر وہاں کے مختلف شعبہ جات میں نام کمانے کے بجائے مسلم ممالک میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر سکیں ۔
اضافی مضمون:
یورپ کی علمی چوریاں اور ان کی مختصر تاریخ۔۔
ڈاکٹر احید حسن
ایک جرمن ریاضی داں ویدمان لکھتا ہے ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عربوں نے بعض نظریات یونانیوں سے لیے تھے،لیکن انہوں نے ان کے نظریات کو اچھی طرح سمجھ کر ان کا اطلاق مختلف ادوار کے حالات پر کیا۔ پھر انہوں نے جدید نظریات اور اچھوتے مباحثات پیش کیے۔ اس طرح ان کی عملی خدمات نیوٹن اور دوسرے سکالرز سے کم نہیں ہیں ۔ ‘‘
دمشق کے ایک مسلمان کاریگر نے ایک آلہ ایجاد کیا جو ’’نفت‘‘کہلاتا تھا۔ یہ لکڑی کا ایک بڑا برتن (ڈرم)تھا، جس کی دم بہت بڑے نیزے کی طرح طویل تھی اس سے جو آواز نکلتی تھی، وہ بجلی کی کڑک کے مانند تھی اور یوں لگتا تھا کہ آتشیں اژدہا ہوا میں اڑتا ہوا آرہا ہے۔ اس میں سے ازحد تیز روشنی نکلتی تھی جس کے باعث رات کو دور دور تک کی چیزیں دکھائی دیتی تھیں ۔ جب یہ ڈرم پھٹ کر زمیں پر گرتا تو ہر طرف آگ پھیل جاتی تھی۔ نفت کا استعمال صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں میں کیا تھا(یہ نفت ابتدائی بیلسٹک میزائل تھا)۔ اس عہد میں نفت سازوں کوخصوصی طور پر فوجی محکمہ میں بھرتی کیا جاتا تھا جو فوجی انجینئروں کے ماتحت فنی خدمات انجام دیتے تھے۔ صلیبی جنگوں کے دوران مسلمانوں نے جو بارود استعمال کیا تھا،اسے گن پاؤڈر کہا جا سکتا ہے۔ مصریوں نے ایک قسم کا آلہ تیار کیا جس سے پستول یا پٹاخے کی آواز پیدا ہوتی تھی جسے سن کر دشمن ڈر جاتے تھے۔ ان آلات کو سواریخ(Crackers)کہا جاتا تھا۔ اس ابتدائی پستول کو ابتدائی توپ بھی کہا جاتا ہے۔ عثمانیوں کے عہد حکومت میں استنبول کے محاصر کے دوران ایسی توپیں استعمال ہوئیں جس سے چار سو کلوگرام کے گولے 2.4کلومیٹر کے فاصلے سے پھینکے جا سکتے تھے۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ بارود سب سے پہلے برطانوی دانش ور روجر بیکن نے ایجاد کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔
برہان الدین نامی طبیب اور مصنف نے تحقیق کی خون میں سکر العنب (بلڈ گلوکوز)پائی جاتی ہے۔ اس طرح اس انسان نے شوگر(ذیابیطس)کی عملی تحقیق کی بنیاد رکھی جس کے علاج کی بنیاد بلڈ گلوکوز کے کنٹرول پر منحصر ہے۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے یورپ نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ سمندر میں موتی تلاش کرنے والے غوطہ خوروں کو سانس لینے میں اتنی دشواری پیش آتی تھی کہ پانی کے اندر زیادہ دیر تک ٹھہر نا جان لیوا ہوسکتاتھا۔ اس دشواری پر قابو پانے کے لیے بغداد کے غوطہ خوروں نے ایک چرمی گیئر ایجاد کیا تھا جسے وہ اپنے سینے پرباندھ کرپانی میں غوطہ لگا سکتے تھے۔ البیرونی کے بیان کیے ہوئے ایک طریقے کے مطابق چرمی گیئر میں ایک چھوٹی مگر غوطہ خوروں کے گہرائی کے برابر چرمی نلکی فٹ کی جاتی۔ جس کا اوپر ی سراسطح آب پرایک گول پلیٹ کی پیندی کے سوراخ سے بند ھا ہواہوتا۔ غوطہ خور کی سانس اس نلکی سے جاری رہتی تھی۔ اس طریقے کا فائدہ یہ تھا کہ غوطہ خور جتنے دنوں چاہتا پانی میں رہ سکتا تھا۔ سمندر وں ، دریاؤں اور کنوؤں میں گری ہوئی اشیاء یا بھاری چیزوں کو نکالنے کے لیے خاص قسم کی مشینیں تیار کی گئی تھیں ۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے یورپ نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔
ابوبکر رازی نے نیوٹن سے کئی سو سال قبل کشش ثقل کا نظریہ پیش کیاانھوں نے ایک تصنیف کتاب سبب وقوف الارض فی السماء قطعی کی گھڑی” (Catle clock) تھی جسے دنیا کا پہلا اینا لاگ کمپیوٹر سمجھا جاتا ہے لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ کمپیوٹر کی ایجاد کی بنیاد سب سے پہلے یورپ نے رکھی ور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔
طوسی عددی تجزیہ کے حوالے سے وہ طریقہ جانتا تھا جسے بعد میں Viet,s methکے نام سے مشہور کر دیا گیا۔ یہ ممکن ہے کہ عمر خیام،طوسی اور جمشید الکاشی کا طریقہ سولہویں صدی کے یورپی ماہرین کو کو معلوم ہوا جن میں سب سے اہم فرانکوئس ویٹ ہے۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے یورپ نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔
طوسی کو الجبرا کا ایک اور میتھڈ بھی معلوم تھا جو بعد میں نیوٹن نے بھی استعمال کیا۔ شرف الدین کے جانشین جمشید الکاشی نے Nکا جذر(Root)معلوم کرنے کے لیےxp-N=0کے حل کے لیے ایک طریقہ استعمال کیا جسے بعد میں نیوٹن نے بھی استعمال کیا۔ یہی طریقہ بعد میں مغربی یورپ میں ہنری بگز نے اپنی 1633ء میں شائع ہونے والی کتاب Trignometria Britanicaمیں بیان کیا۔
طوسی سائنس میں حیاتیاتی ارتقاء(بائیولوجیکل ایوو لوشن) کا مقصد پیش کرنے والے ابتدائی سائنسدانوں میں شامل ہے۔ اس نے کہا کبھی کائنات یکساں اور مشابہہ عناصر (ایلیمنٹس)پر مشتمل تھی جو بذات خود عناصری ذروں (Elementary particles) پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ طوسی کے مطابق پھر اندرونی تبدیلیاں شروع ہوئیں اور بعض مادوں نے دوسروں کی نسبت زیادہ تیزی سے نشوونما پائی۔ اس نے وضاحت کی کہ کس طرح عناصر(ایلیمنٹس) معدنیات میں تبدیل ہو گئے اور پھر جانوروں اور انسانوں میں (راقم کا اس رائے سے متفق ہونا ہرگز لازمی نہیں ہے)۔
طوسی نے وضاحت دی کہ کس طرح وراثتی تنوع(Hereditary variability) زندہ اشیاء کے حیاتیاتی ارتقاء کا اہم حصہ تھی۔ اس نے لکھا کہ وہ جاندار جو نئی خصوصیات تیزی سے حاصل کرتے ہیں ، ان میں وراثتی تنوع زیادہ ہوتا ہے۔ اجسام اندرونی(Genetic)اور بیرونی(ماحولیاتی)عوامل کے باہمی تعامل سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ طوسی کی اس وضاحت کو جدید علم
وراثت(Genetics)بالکل دست قرار دیتا ہے۔ طوسی نے اس بات کی وضاحت دی کہ کس طرح جاندار اپنے ماحول کو اپنا لیتے ہیں جسے آج کی سائنسی زبان میں Adaptationکہا جاتا ہے۔
لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ نظریہ ارتقاسب سے پہلے یورپ میں ڈارون نے پیش کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ طوسی نے کیمسٹری کا مشہور قانون، قانون بقائے مادہ(Law of conservation of matter) فرانسیسی کیمیادان انٹونیو لیوائزے سے پانچ سو سال پہلے پیش کیا۔ طوسی کے مطابق ایک مادہ کبھی مکمل غائب نہیں ہوتا۔ یہ صرف اپنی شکل،حالت،رنگ اور دوسری خصوصیات تبدیل کرتا ہے اور ایک مختلف عنصری مادے(Elementary matter) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے یورپ میں فرانسیسی کیمیا دان اینٹونیو لیوائزے نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یھی پڑھایا جاتا ہے۔
عمر خیام نے کو پر نیکس(پولینڈ کا پندرھویں صدی عیسوی کا مشہور ماہر فلکیات) سے پہلے ہی نظام شمسی کیHeliocentric theory) ) پیش کی جس کے مطابق نظام شمسی کا مرکز سورج ہے نہ کہ زمین۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے یورپ نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ خیام سشیری چوگوشہ کا ذکر یورپی ریاضی دان سشیری سے پہلی ہی خیام اپنی کتاب، شرح مشکل من مصدرت اقلیدس کے پہلے حصے میں گیارہویں صدی عیسوی میں کر چکا تھا۔ خیام متوازی کے نظریے کو اپنے پیشروؤں کے بر عکس ایک اور طریقے سے اخذ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جسے اس نے ارسطو کے اصولوں سے لیا تھا۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ اسے سب سے پہلے سشیری نے پیش کیا۔
خیام نے چوگوشہ(Quadrilateral)کی تین صورتیں حادی(Acute)،منفرجہ(Obtuse) اور عمودی(Right)لیں ۔ کئی تھیورم ثابت کرنے کے بعد اس نے منفرجہ اور حادہ صورتوں کا انکار کیا۔
چھ سو سال بعد ہی کوئی خیام سے اس معاملے میں آگے بڑھ سکا جب جیورڈینو وٹیل نے اپنی کتاب Euclide restituoمیں چوگوشہ کو اپنے تھیورم کے ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا۔ سشیری نے اپنے پیرالل کا نظریہ یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا کہ چوگوشہ یا کواڈری لیٹرل کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں جب کہ خیام نے منفرجہ(Obtuse) اور حادہ(Acute)صورتوں کا انکار کیا تھا۔ کے الزرقالی نے جو ہانس کپلر، (۱۵۷۱-۱۶۳۰ء) جسے جدید سائنس کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے، سے پہلے بتایا ہے کہ مدار بیضوی ہوتے ہیں ۔ کپلر نے اپنی تصنیف Astonomia Nove (New Astronomy جدید فلکیات) میں اپنے تین قوانین میں پہلے دوقوانین دیے ہیں ان میں پہلا قانون یہ ہے کہ ایک مقام پر مقرر سورج کے گرد سیارے بیضوی مدار میں گردش کرتے ہیں ۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں D. Pingree کا بیان ہے: ’’
ابن الشاطر کی اس ہنر مندی اور ان میں کئی باتیں مشتر ک ہیں جو دوصدیا ں گزر جانے کے بعد کو پرنکس نے تجویز کیے تھے۔ دونوں کے بتائے ہوئے عطارد او ر قمر کے ماڈل یکساں ہیں ، وہ دونوں نے ’’زوج طوسی‘‘ سے کام لیا ہے۔ دونوں سے دوائر تدویر کو اساسی طور پرایک ہی طریقے سے حذف کیا ہے۔ اس لیے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ کوپرنکس ابن الشاطر کی تخلیق سے واقف تھا تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا ہے کہ کوپر نکس کواس کا علم کیسے ہوا۔ ‘‘لیکن ابن شاطر کی تصانیف کو کوپرنیکس سے منسوب کر دیا گیا اور آج کوپر نیکس کوط جدید سائنس کا بانی کہا جاتا ہے جب کہ ابن شاطر کا نام تک نظر نہیں آتا۔ دوربین ابو معشر بلخی نے ۲۷ محرم ۲۱۷ ھ کو بنائی لیکن اب اسے گلیلو کی ایجاد مانا جاتاہے۔
سورج کی سطح پر دھبوں کی نشاندہی سب سے پہلے ابن رشد نے کی مگر یورپ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ دھبے پہلے پہل گلیلو کی دوربین کو نظر آئے، جنہوں نے ابن رشد کی آنکھ بند ہوئے۳۶۶سال بعد آنکھیں کھولی ہیں لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے یورپ نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔
اسلامی ریاضی میں خجندی نے x=3 کے لیے ایک خاص مسئلہ پیش کیا جسے یورپ نے نے فرمیٹ کے آخری تھیورم (Fermat,s last theore) کے نام سے مشہور کر دیا۔ سائن کے قانون یا لاء آف سائن کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ یہ خجندی نے نے دریافت کیا لیکن یہ بات نہیں معلوم کہ اسے اس نے پہلے دریافت کیا یا ابو نصر منصور یا ابو الوفا نے۔ خازنی اور بیرونی پہلے انسان تھے جنہوں نے تجرباتی سائنس کے طریقوں کا سکونیات(سٹیٹکس)اور حرکیات(ڈائنا مکس) میں استعمال کیا۔ انہوں نے فزکس کی ان دونوں شاخوں کو متحد کر کے ہائیڈرو ڈئنا مکس کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے نسبت اور از حد چھوٹی تکنیکوں (Infinitesimal technique) کے ریاضیاتی نظریوں کا اطلاقکیا۔ انہوں نے الجبرا اور ریاضی کو فزکس کی پیمائشوں میں استعمال کیا۔ وہ اور اس کے مسلم پیشرو تاریخ کے پہلے انسان تھے جنہوں نے مرکز ثقل یا سنٹر آف گریویٹی کے نظریے کو عمومی بنا کر اسے سہ جہتی اجسام(Three dimensional bodies) پر اپلائی کیا۔ وہ دونوں گریویٹی یا تجاذب کی سائنس کے حقیقی خالق قرار پائے جسے اہل مغرب نے مزید آگے بڑھایا۔ خازنی اور اس کے مسلم پیشرووں کے مکینکس یا حرکیات پر کام نے یورپ کی کلاسیکل مکینکس کی بنیاد رکھی جسے بعد ازاں نیوٹن جیسے مغربی سائنس دانوں نے استعمال کیا۔
اسلامی فزکس میں ابن باجہ کا نظریہ حرکت یہ تھا کہ کسی بیرونی فورس یا قوت کی غیر موجودگی میں ہر جسم یکساں حرکت(یونیفارم موشن) میں رہتا ہے(لیکن افسوس ہے کہ اس تصور کو نیوٹن کے پہلے قانون حرکت کی صورت میں مشہور کر دیا گیا جب کہ ابن باجہ اور ابن سینا یہ قانون نیوٹن سے چھ سو سال پہلے پیش کر چکے تھے)۔ ابن باجہ کے اس اصول نے بعد میں جدید حرکیات (مکینکس)کی بنیاد ڈالی اور بعد کی یورپی ماہرین فزکس مثلا گلیلیو پر گہرا اثر ڈالا۔ ابن باجہ نے ولاسٹی کی جو تعریف بیان کی، پانچ سو سال بعد گلیلیو نے بھی وہی تعریف بیان کی۔
ابن باجہ کے مطابق ولاسٹی =حرکت دینے والی فورس یا قوت (Motive power)_جسم کی مزاحمت(Resistance) ابن باجہ وہ پہلا انسان تھا جس نے یہ قانون پیش کیا کہ ہر قوت یا فورس کے عمل کا ایک رد عمل یا ری ایکشن ہوتا ہے (مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ابن باجہ کے اس قانون کو بھی اس کے پانچ سو سال بعد آنے والے سائنسدان نیوٹن کے تیسرے قانون حرکت کے طور پر مشہور کر دیا گیا)ابن باجہ کے اس تصور کو گو ٹفرائیڈ لئبنز نے بھی بعد میں پیش کیا۔ جب کہ آج ہم سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ کلاسیکل مکینکس کی بنیاد نیوٹن اور گلیلیو نے رکھی جب کہ مسلم سائنسدان خازنی،بیرونی اور ابن باجہ اس کی بنیاد پانچ سو سال پہلے رکھ چکے تھے۔ (programmable castle clock, the first programmable analog computer)الجزری کی سب سے بڑی فلکیاتی گھڑی” ایکعنوان سے تحریر کی، جس میں انھوں نے بتایا کہ زمین کشش کے سہارے فضا میں معلق ہے۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے ے نیوٹن نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔
رازی نے ابو معشر بلخی کے بعد مدوجز کا مطالعہ کرکے بتایا کہ اس کا اصل سبب چاند کی کشش ہے۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سیارے سورج کی کشش کی بنا پر اس کے گرد حرکت کرتے ہیں ۔ مسلم علماء اس امر سے واقف تھے کہ گرتے ہوئے اجسام کی اسراع کا تعلق ان کی کمیت سے نہیں ہوتا نیزوہ اس سے بھی آگاہ تھے کہ دوجسموں کےدرمیان قوت کشش اس وقت بڑھ جاتی ہے۔ جب ان کا باہمی فاصلہ کم ہوتاہے۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلےنے نیوٹن نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے اور اسے جھوٹ بول کر نیوٹن کے یونیورسل لاء آف گریویٹیشن کے نام سے مشہور کر دیا گیا۔
راجر بیکن جن کو جدید سائنس کا بانی تصور جاتاہے اپنی تصنیف perspectiva میں قدم قدم پرابن الہیثم کا حوالہ دیتے ہیں ۔ ان کی کتاب کا پانچویں حصہ تقریباًسارے کا سارا ابن الہیثم کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ ول دوران کا بیان ہے کہ اگر ابن الہیثم نہ ہوتے تو راجر بیکن کانام بھی سننے میں نہ آتا،لیکن اسلام کی سائنسی تاریخ پہ پردہ ڈال کر جابر،ابن الہیثم اور بیرونی کی جگہ روجر بیکن کو جدید سائنس کا بانی قرار دیا گیا۔ پیک ہیم(Pecham) کی تصنیف Perspectiva Communis کتاب المناظر کا خلاصہ ہے پول وایٹلو کی کتاب Opticae Libri Decem سارادار ومدارابن الہیثم کی تحقیقات پر ہے۔ اسلامی منطق میں ابن تیمیہ نے یونانی منطق کے رد میں ایک کتاب ” الرد علی لمنطقیہ” لکھی جس مین انہوں نے قیاس (syllogism) کے فوائد اور استقرائی توجیہہ(induction reasoning) کے حق میں دلائل دیے انہوں نے منطق کو اسلامی شریعت اور فقہ میں بھی استعمال کیا۔ ” ابن تیمیہ کی قانونی منطق(لیگل لا جک) کا بنیادی تصور یہ ہے کہ بیرونی دنیا کا علم خاص اشیاء کے مشاہدے سے وجود میں آتا ہے۔ ” ابن تیمیہ کے اسی مقصد کو انیسویں صدی میں مل تھیوری(Mill’s theory) کے طور پر پیش کیا گیا۔ جب کہ در حقیقت وہ ابن تیمیہ کے نظریے کی ایک شرح تھی الجاحظ کی کتاب الحیوان سات جلدوں پر مشتمل شاعرانہ بیانات اور جانوروں کی350 اقسام کے بارے میں معلومات کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اسے الجاحظ کی اہم ترین تصنیف مانا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے Book of animals کہا جاتا ہے۔
اس کتاب میں اس نے ماحول کے جانوروں پر اثر کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں اس نے نظریہ ارتقاء (تھیوری آف ایوولوشن) کو پیش کیا ہے مگر بدقسمتی سے یورپ نے اسے چارلس ڈارون سے منسوب کر دیا جو کہ انتہا درجے کی علمی چور ی ہے۔ اس میں اس نے تاریخ میں پہلی دفعہ جانوروں کی بقا کے لیے جدہ جہد(struggle for کو بیان کیا ہے۔ جو کہ قدرتی چناؤ کے نظریے (تھیوری آف نیچرل سلیکشن ) بنیاد ہے۔ افسوس ہے کہ یورپ نے اس نظریے کو بھی اپنے نام لکھوا لیا۔ الجاحظ کے بقاء کے لیے جدو جہد کے نظریے کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ جانوروں کو زندہ رہنے کے لیے وسائل، شکار بننے سے بچنے اور تولید کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ماحولیاتی عوامل(environmental factors) جانداروں کو ایسی خصوصیات حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں جو انکی بقا کے لیے لازم ہوتی ہیں ۔ اس سے نئی سپی شیز(species) وجود میں آتی ہیں ۔ وہ جانور جو بقا حاصل کر لیتے ہیں تولید کے ذریعے خصوصیات کو اپنی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں ”
یورپ کی علمی چوری یہاں بھی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔
الجاحظ کے بقا کے نظریے اور نئی سپی شیز کے وجود میں آنے کے نظریے کو لا مارک اور ڈارون سے منسوب کر دیا گیا۔ ابن الہیشم کو جدید بصریات (ماڈرن آپٹکس ) کابابا اور بانی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنی کتاب ” کتاب البصریات” میں اس نے دیکھنے یا ویژن کی Intromision Theoryکو ثابت کیا او راسے اس کی جدید شکل میں پیش کیا۔ اسی بصریات پر اپنے تجربات کی وجہ سے بہت جانا جاتا ہے ا س نے عدسوں (نیز، آیئنوں (مرز)، اتعطاف(ریفریکشن) انعقاس(ریفلیکشن) اور روشنی کے سات رنگوں میں تقسیم ہونے یعنی ڈسپریشن آف لائٹ پر (مگر بدقسمتی سے یہ مشہور ہے کہ نیوٹن نے سب سے پہلے اس بات کو دریافت کیا)۔ اس نے روشنی کی رفتار بھی بیان کی اور اس بات کی دلیل دی کہ روشنی ذرات(Particles) پر مشتمل ہے جو خطِ مستقیم میں حرکت کرتے ہیں ۔ اس طرح اس نے نیوٹن سے سات سو سال قبل روشنی کا ذراتی نظریہ یا Corpuscular theory of light پیش کیا لیکن یورپ نے اسے نیوٹن کے نام سے منسوب کر دیا۔
الہیثم نے فرمیٹ سے پہلے قل ترین وقت کے اصول (Fermat’s principle of least time) کو بیان کیاجس کے مطابق روشنی کسی میڈیم گزرتے ہوئے کم سے کم وقت لیتی ہے (افسوس کہ الہیشم کے اس اصول کو فرمیٹ سے منسوب کر دیا گیا)۔ اس نے تاریخ میں پہلی دفعہ انریشا(Inertia) یا جمود کا تصور پیش کیا جو نیوٹن کےءء پہلے قانونِ حرکت میں بیان کی گیا ہے (افسوس کہ الیشم کے اس اصول کو بھی نیوٹن سے منسوب کر دیا گیا۔ اس نے مومنٹم کا تصور پیش کیا (افسوس یہ ہے کہ یہ اصول بھی نیوٹن سے منسوب کر دیا گیا)۔ اس نے مختلف ماسزی یاکمیتوں کے درمیان قوتِ کشش یا اٹریکشن کومعلوم کیا (افسوس کہ اس قانون کو بھی نیوٹن کے کائناتی تجازب کے قانون یا یونیورسل لاء آف گریوی ٹیشن سے مشہور کر دیا گیا۔ اس نے دریافت کی کہ فلکیاتی اجسام بھی قوانین فزکس کی پیروی کرتے ہیں جبکہ بعض ایل یورپ کافی سال تک یہ سوچتے رہے کہ ایسا نہیں ۔
بنو موسیٰ نے تاریخ میں سب سے پہلے حرکیاتی موسیقاتی آلات (میوزئکل مکینیکل ڈیوائسز)بنائے۔ اس میں انہوں نے پانی کی قوت سے چلنے والا ایک آلہ(ہائیڈرو پاورڈڈ دیوائس)بنایا جس میں تبدیلی کیبل سلنڈر استعمال کیے گئے تھے لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے برطانوی سائنسدان جارج سٹیفن سن نے یورپ میں ایجاد کیا تھا اور اس کی بنیاد پہ سٹیم انجن اور یل گاڑی ایجاد کی گئی اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ اپنی کتاب فلکیاتی حرکات اور قوت کشش میں ابن محمد ابن موسیٰ نے دریافت کیا کہ آسمانی اجسام کے درمیان ایک کشش کی قوت ہوتی ہے جسے آج گریویٹی کہا جاتا ہے۔ محمد ابن موسیٰ کے اسی تصور کو بعد میں نیوٹن نے اپنے کائناتی تجاذب کے قانون(یونیورسل لاء آف گریویٹیشن) میں پیش کیا مگر بنو موسیٰ اس تصور کو نیوٹن سے آٹھ سو سال پہلے پیش کر چکے تھے لیکن یہ قانون یورپ نے نیوٹن سے منسوب کر دیا۔ بصریات (آپٹکس) میں سینا نے مشاہدہ کیا کہ روشنی روشن جسم سے خارج ہونے والے ذرات کی وجہ سے ہے اور روشنی کی رفتار محدود(Finite) ہے۔ یوں در حقیقت روشنی کا ذراتی نظریہ(Corpuscular theory of light) نیوٹن کی بجائے سینا نے پیش کیا مگر اسے نیوٹن سے منسوب کر دیا گیا۔ گرچہ ابن الشاطر کانظام اس تصور پر مبنی تھا زمین کائنات کا مرکز ہے یعنی Geocentric Thoryلیکن وہ بطلیموس کے ماڈل میں موجود کئی تصور مسترد کر چکا تھا نکولس کوپر ینکس ( پولنیڈ کا مشہور فلکیات دان ) نے اپنی کتاب ’’ ڈی ریوولوشنی بس‘‘ (De revolationi bus)میں جو اپنے نظام کی ریاضیاتی تفصیلیں پیش کیں وہ درحقیقت ابن الشاطر کی تفصیلوں جیسی ہی تھیں ۔
اس کا مطلب ہے کہ ابن شاطر کے ماڈل نے کوپرنیکس کے ہیلیوسنٹرک ماڈل پر گہرا اثرڈالا۔ کوپرنیکس نے قمری ماڈل استعمال کیاوہ ابن الشاطر کے ماڈل سے مختلف بالکل نہ تھا۔ اگرچہ یہ نامعلوم ہے کہ ایسا کیوں ہو ا لیکن یہ بات معلوم ہے کہ ابن الشاطر کے استعمال کردہ طوسی کپل کاباز نطینی یونانی نسخہ پندرہویں صدی عیسوی میں اٹلی پہنچ چکا تھا۔ کوپر نیکس نے اپنے ہی لیو سنٹرک ماڈل میں جوتصویریں (ڈایا گرامز)اور نقاط (پوئنٹس ) استعمال کیے وہ درحقیقت وہی تھے جوابن شاطر نے اپنے جیو سنٹرک ماڈل میں استعمال کیے تھے۔ لٰہذا یہ بات ازامکان ہے کہ کوپرنیکس ابن شاطر کے کام سے واقف تھا۔ ایم فاروقی لکھتاہے ’’ جس قمری ماڈل کی نسبت کوپرنیکس کی طرف کی جاتی ہے ویسا ہی قمری ماڈل 150سال پہلے ابن الشاطر استعمال کر چکا تھا۔ ابن الشاطر نے سیاروں کے لیے جیوسنٹرک ماڈل کا جوتصور استعمال کیا تھا ویساہی ماڈل کوپر نیکس نے اپنے ہیلیوسنٹرک ماڈل میں پیش کیا۔ ‘‘ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے ے کوپرنیکس نے دریافت کیا تھا اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ کے سائنسدان تقی الدین کی کتابوں میں سے ایک کتاب ’’ الطرق السمیۃ فی الآلات الروحانیہ (1551 ؁ء) میں ابتدائی بھاپ سے چلنے والے انجن (سٹیم انجن )کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ؁1551ء میں تقی الدین نے دنیا کی پہلی عملی سٹیم ٹربائن ایجاد کی جو دنیا کے پہلے بھاپ کی طاقت سے چلنے والے خود کا متحرک نظام(Steam-powered self-rotating spit) کو حرکت میں لاتی 1551 ؁ء میں مکمل ہونے والے اس مقالے میں تقی الدین نے لکھا۔ ’’ایک ایسا آلے کا بنانا جو گوشت کو کسی جانور کی طاقت کے بغیر آگ پر لے جائے۔ اسے لوگوں نے کئی طریقوں سے بنایا اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے سر ے پر ایک پہیہ ہواور اس کے مخالف تانبے کا بنا ہوا کھوکھلا پائپ ہو جس میں پانی بھراہوا ہو۔ اس کے نیچے آگ جلا نے سے بھاپ نکلے گی اور یہ پہیے کو گھمائے گی۔ جب پائپ خالی ہو جائے تو اس کے سوراخ (nozzle) کو دوبارہ ٹھنڈے پانی کے ایک ٹینک میں ڈالیں ۔ بھاپ سے تمام پانی پائپ میں آجائے گا۔ اور دوبارہ گرم ہوکر پہیے کو گھماناشروع کردے گا۔ مگر افسوس ہے کہ اس کے بعد 1629 ؁ء میں گیووینی برانکا(Giovanni Branca) کی بھاپ کی طاقت کی دریافت کو تو بیان کیا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے کی تقی الدین کی دریافت کی طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔
ء الطروق الثانیہ فی آلات الروحانیہ( اس میں آبی گھڑیوں ، وزن اٹھانے والے آلات، پانی بلندی تک لے جانے والے آلات اور بھاپ کی طاقت یا سسٹم پاور سے چلنے والے انجن پر چھ باب ہیں ۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ سب سے پہلے برطانوی سائنسدان جارج سٹیفن سن نے یورپ میں ایجاد کیا تھا اور اس کی بنیاد پہ سٹیم انجن اور یل گاڑی ایجاد کی گئی اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ تقی الدین نے ٹیلی سکوپ (روربین ) بھی بنائی۔ پہلی دفعہ انسانی دور بین اگرچہ ابتدائی تھی، اس نے بنائی جسے وہ یو ں بیان کرتا ہے۔ ’’ میں نے ایک بلار(Billawr) بنائی جس کے دو لینز (عدسے ) ہیں ۔ جو اجسام کے دور سے بھی واضح دکھاتے ہیں ۔ جب لوگ ان کے کسی سرے سے دیکھتے ہیں تو وہ سامنے آتے ہوئے بحری جہاز کو دیکھ سکتے ہیں ۔ ‘‘ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ دوربین سب سے پہلے یورپ میں گلیلیو نے ایجاد کی تھی اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ اسلامی منطق میں ابن تیمیہ نے یونانی منطق کے رد میں ایک کتاب ” الرد علی لمنطقیہ” لکھی جس مین انہوں نے قیاس (syllogism) کے فوائد اور استقرائی توجیہہ(induction reasoning) کے حق میں دلائل دیے انہوں نے منطق کو اسلامی شریعت اور فقہ میں بھی استعمال کیا۔ ”
ابن تیمیہ کی قانونی منطق(لیگل لا جک) کا بنیادی تصور یہ ہے کہ بیرونی دنیا کا علم خاص اشیاء کے مشاہدے سے وجود میں آتا ہے۔ ” ابن تیمیہ کے اسی مقصد کو انیسویں صدی میں مل تھیوری(Mill’s theory) کے طور پر پیش کیا گیا۔ جب کہ در حقیقت وہ ابن تیمیہ کے نظریے کی ایک شرح تھیالجاحظ کی کتاب الحیوان سات جلدوں پر مشتمل شاعرانہ بیانات اور جانوروں کی350 اقسام کے بارے میں معلومات کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اسے الجاحظ کی اہم ترین تصنیف مانا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے Book of animals کہا جاتا ہے۔ اس کتاب میں اس نے ماحول کے جانوروں پر اثر کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں اس نے نظریہ ارتقاء (تھیوری آف ایوولوشن) کو پیش کیا ہے مگر بدقسمتی سے یورپ نے اسے چارلس ڈارون سے منسوب کر دیا جو کہ انتہا درجے کی علمی چور ی ہے۔ اس میں اس نے تاریخ میں پہلی دفعہ جانوروں کی بقا کے لیے جدہ جہد(struggle for کو بیان کیا ہے۔ جو کہ قدرتی چناؤ کے نظریے (تھیوری آف نیچرل سلیکشن ) بنیاد ہے۔ افسوس ہے کہ یورپ نے اس نظریے کو بھی اپنے نام لکھوا لیا۔ الجاحظ کے بقاء کے لیے جدو جہد کے نظریے کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ جانوروں کو بقا، زندہ رہنے کے لیے وسائل، شکار بننے سے بچنے اور تولید کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
ماحولیاتی عوامل(environmental factors) جانداروں کو ایسی خصوصیات حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں جو انکی بقا کے لیے لازم ہوتی ہیں ۔ اس سے نئی سپی شیز(species) وجود میں آتی ہیں ۔ وہ جانور جو بقا حاصل کر لیتے ہیں تولید کے ذریعے خصوصیات کو اپنی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں ” یورپ کی علمی چوری یہاں بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ الجاحظ کے بقا کے نظریے اور نئی سپی شیز کے وجود میں آنے کے نظریے کو لا مارک اور ڈارون سے منسوب کر دیا گیا۔ ابن الہیشم کو جدید بصریات (ماڈرن آپٹکس ) کابابا اور بانی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنی کتاب ” کتاب البصریات” میں اس نے دیکھنے یا ویژن کی Intromision Theoryکو ثابت کیا او راسے اس کی جدید شکل میں پیش کیا۔ اسی بصریات پر اپنے تجربات کی وجہ سے بہت جانا جاتا ہے ا س نے عدسوں (نیز، آیئنوں (مرز)، اتعطاف(ریفریکشن) انعقاس(ریفلیکشن) اور روشنی کے سات رنگوں میں تقسیم ہونے یعنی ڈسپریشن آف لائٹ پر (مگر بدقسمتی سے یہ مشہور ہے کہ نیوٹن نے سب سے پہلے اس بات کو دریافت کیا)۔ اس نے روشنی کی رفتار بھی بیان کی اور اس بات کی دلیل دی کہ روشنی ذرات(Particles) پر مشتمل ہے جو خطِ مستقیم میں حرکت کرتے ہیں ۔ اس طرح اس نے نیوٹن سے سات سو سال قبل روشنی کا ذراتی نظریہ یا Corpuscular theory of light پیش کیا لیکن یورپ نے اسے نیوٹن کے نام سے منسوب کر دیا۔
الہیثم نے فرمیٹ سے پہلے قل ترین وقت کے اصول (Fermat’s principle of least time) کو بیان کیاجس کے مطابق روشنی کسی میڈیم گزرتے ہوئے کم سے کم وقت لیتی ہے (افسوس کہ الہیشم کے اس اصول کو فرمیٹ سے منسوب کر دیا گیا)۔ اس نے تاریخ میں پہلی دفعہ انریشا(Inertia) یا جمود کا تصور پیش کیا جو نیوٹن کےءء پہلے قانونِ حرکت میں بیان کی گیا ہے (افسوس کہ الیشم کے اس اصول کو بھی نیوٹن سے منسوب کر دیا گیا۔ اس نے مومنٹم کا تصور پیش کیا (افسوس یہ ہے کہ یہ اصول بھی نیوٹن سے منسوب کر دیا گیا)۔ اس نے مختلف ماسزی یاکمیتوں کے درمیان قوتِ کشش یا اٹریکشن کومعلوم کیا (افسوس کہ اس قانون کو بھی نیوٹن کے کائناتی تجازب کے قانون یا یونیورسل لاء آف گریوی ٹیشن سے مشہور کر دیا گیا۔ اس نے دریافت کی کہ فلکیاتی اجسام بھی قوانین فزکس کی پیروی کرتے ہیں جبکہ بعض ایل یورپ کافی سال تک یہ سوچتے رہے کہ ایسا نہیں ۔ اس نے گریویٹی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایکسلریشن کی مقدار (Magnitude) کوبھی دریافت کیا (افسوس ہے کہ اسے گلیلیو سے منسوب کر دیاگیا۔ ) اس نے بطلیموس کے فلکیات کی اصلاح اور اس پر ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا۔
وہ پہلا انسان تھا جس نے نمبر تھیوری میں ولسن تھیورم (Wilson’s Theorems) بیان کیا(افسو اس کے اس کام کو ولسن سے منسوب کر دیا گیا )اور اس نے لیمبرٹ کوارڈری لیٹرل (Lambert Qaadrilateral) تخلیق کی (انتہائی افسوس ہے کہ اس کی تخلیق کی ہوئی کواڈری لیٹرل کو لیمبرٹ سے منسوب کر دیا گیا ) وہ پہلاانسان تھا جس نے روشنی کی منعکس (Reflected) اور منعطف (Refracted) شعاعوں کو عمودی (Vertical) اور افقی(Horizontal) اجراء میں تقسیم کیا جس نے جیو میٹرک آپٹکس کی بنیاد رکھی۔ اس نے انعکاس کا قانون دریافت کیا کہ ریاضی کے حوالے سے بھی اسے اخذ کیا(لیکن افسوس اس قانون کو Snell’s law کے نام سے مشہور کر دیا گیا(۔ اس نے مختلف کمیتوں یا ماسز(masses) کے درمیان قوتِ کشش (Attraction) کا نظریہ بیان کیا لیکن افسوس کہ اس نظریہ کو نیوٹن کے کائناتی تجاذب کے قانون یا یونیورسل لاء آف گریوی ٹیشن کے نام سے مشہور کر دیا گیا۔ الہیشم نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک جسم مسلسل حرکت میں رہتا ہے جب تک ایک بیرونی قوت اسے روکتی نہیں یا اس کی حرکت کی سمت تبدیل نہیں کرتی۔ (لیکن افسوس کہ الہیشم کے اس قانون کو نیوٹن کے پہلے قانون حرکت کے طور مشہور کر دیا گیا )۔ الہیشم کا یہ تصو رانرشیا یا جمود کے تصور کے مترادف تھا۔
اس کے صدیوں بعد اس قانون کی بنیاد پر گلیلیو نے مکینکس میں رگڑ کی قوت یا فرکشنل فورس کا تصور متعارف کرایا۔ اس نے یہ ظاہر کرنے کیلئے جیومیٹری استعمال کی کہ مقام یا Place ایک جسم کی اندرونی سطحوں کے درمیان ایک سہ جہتی(Three-dimensional) جگہ ہے۔ ابن الہیشم نے مومنٹم کے تصور کو اس وقت دریافت کیا جس وقت ابن سینا نے دریافت کیا (لیکن افسوس کہ سینا اور الہیشم کے اس تصور کو بھی نیوٹن کے نام لکھ دیا گیا۔ اس نے اپنے ایک تھیور م استعما ل کر تے ہوئے Comgruences واے پرابلمنر کو حل کیا۔ ۔ لیکن افسو س کہ اس کے اس تھیورم کو ولسن تھیو رم کے نام سے مشہور کردیاگیا۔ علی مصطفی مشرفہ پاشا، مصری مسلم سائنسدان جس نے ائن سٹائن سے بھی پہلے تھیوری آف ریلیٹویٹی پہ تحقیق پیش کی مصطفی نے کوانٹم تھیوری، تھیوری آف ریلو یٹویٹی اور مادے اور ریڈی ایشن کے تعلق پر معرف سائنسی جریدوں میں 25 تحقیقی مقالے شائع کیے۔
مصطفی نے اضافت(Relativity) اور ریاضی پر تقریباً بارہ کتابیں شائع کیں ۔ اضافت پر اس کی کتاب کا انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ جب آئن سٹائن نے مصر کا دورہ کیا تو اس نے خصوصاً مصطفی سے ملنے کی گذارش کی۔ کہا جاتا ہے کہ مصطفی کے کوانٹم تھیوری، ریڈی ایشن، مکینکس او رڈائنا مکس کے زبردست علم کی وجہ سے مادے اور توانائی کی تبدیلی کی مشہور مساوات E=mc2 آئن سٹائن او رمصطفی نے اکٹھے پیش کی۔ افسوس ہے کہ اس مساوات کا تذکرہ کرتے ہوئے آئن سٹائن کا نام تو لکھا جاتا ہے اور مصطفی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مصطفی کو15 جون1950 ء میں شہید کر دیا گیا۔ پر یس اور ذرائع ابلاغ کے مطابق اسے بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے عرب کے نمایاں سائنسدانوں کے خلاف ایک آپریشن میں شہید کیا۔ مصری مسلم سائنسدان سمیرہ کا کہنا تھا کہ میں نیو کلیئر طریقہ علاج کوا تنا سستا بناؤں گی جتنی ڈسپرین (اسپرین) کی گولی ہوتی ہے۔ اس نے اس کے لیے زبردست محنت کی۔ آخر کار اس نے ایک تاریخی مساوات بنائی جو سستی دھاتوں مثلاً تانبے (کاپر) کے ایٹموں کو توڑنے میں معاون تھی۔ اس سے ایک سستا نیوکلیائی بم بنایا جا سکتا تھا۔ سمیرہ نےمختلف ہسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے خود کو پیش کیا۔ سمیرہ موسی شہید،عالم اسلام کی پہلی اور اولین خاتون ایٹمی سائنسدان تھی جسے امریکہ بلا کر قتل کیاگیا تھا۔ خان بہادر قاضی عزیز الحق یا قاضی سید عزیز الحق برطانوی دور حکومت میں کلکتہ کا ایک پولیس افسر تھا جس نے فنگر پرنٹس کی کلاسیفکیشن دی۔ اس نے اس نظام کی ریاضیاتی بنیاد بھی فراہم کی لیکن یورپ نے روایتی علمی چوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اس کے انگریز سر پرست ایڈورڈ ہنری کے نام سے” ہنری کلاسیفکیشن سسٹم آف فنگر پرنٹس” کا نام دے دیا۔
ہنری کے متعلق بیون نے لکھا۔ ” اسی دوران ہنری نے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ یہ نظام میں نے ایجاد کیا ہے۔ ا س نے جھوٹ بولا کہ اس کا خیال مجھے ایک سفر کے دوران ٹرین میں آیا۔ اس کا قصہ برطانیہ گیا۔ ہنری نے گالٹن اور عزیز الحق کے کندھے پر رکھ کر جو بندوق چلائی تھی، اس کی کامیابی کی شہرت برطانیہ تک پھیل گئی۔ بعد میں بیون صفحہ 149 پر لکھتا ہے کہ گالٹن نے ہنری فالڈز کے تصورات لیے تھے۔ جبکہ حق نے گالٹن کے نظام کی بنیاد پر اپنا نظام ایجاد کیا۔ اب ہنری نے حق کے نظام کو اپنے نظام کے طور پر مشہور کرنا شروع کر دیا۔ فنگر پرنٹ کی کلاسیفکیشن کا نظام اگرچہ فالڈز، گالٹن اور حق سب کی کوششوں سے سامنے آیا لیکن اب (ہنری کے جھوٹ کی وجہ سے) اسے ہمیشہ ہنری کے نام سے وابستہ کیا جائے گا۔ ” 1790ء سے 1794ء کے دوران ٹیپو کی تعمیر کردہ flint lock blunderbuss gun آج تک اپنے وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی شمار کی جاتی ہے۔ ٹیپو سلطان اور حیدر علی کو عسکری مقاصد کے لیے ٹھوس ایندھن راکٹ(سالڈفیول راکٹ)ٹیکنالوجی اور میزائلوں کے استعمال کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک عسکری حکمت عملی جو انہوں نے وضع کی، وہ دشمن کی کی فوج پر راکٹ بریگیڈ کے ذریعے وسیع حملے تھے۔ ٹیپو نے ایک عسکری رسالہ فتح المجاہدین لکھا۔ ہر میسوری فوج میں دو سو راکٹ والے فوجی مقرر کیے گئے تھے۔ میسور کی فوج سولہ سے چوبیس بریگیڈ پر مشتمل تھی۔ قصبے کے وہ حصے جہاں راکٹ تیار کیے جاتے تھے،تارا مندل پیٹ(کہکشائی بازار)کہلاتے تھے۔
ٹیپو کی شہادت کے بعد یہ ٹیکنالوجی یورپ پہنچی جسے انگریز اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے تھے۔ ٹیپو کے راکٹوں کی بنیاد پررائل وولوک آرسینل نے ملٹری راکٹوں پر تحقیق شروع کی۔ یہ تحقیق 1801ء میں شروع ہوئی اور اس کی بنیاد ٹیپو کی کی ٹیکنالوجی تھی۔ اس تحقیق کا نتیجہ 1805ء میں ٹھوس ایندھن راکٹوں (سالڈ فیول راکٹ)کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کے بعد ولیم کانگریو نے A concise account of origin and progress of rocket system شائع کیا۔ کانگریو کے راکٹوں کو انگریزوں نے نپولین سے جنگوں میں استعمال کیا۔ 1812ء اور بعد میں 1814ء کی بالٹی مور کی لڑائی میں انگریزوں نے جدید راکٹوں کا استعمال شروع کیا جن کی بنیاد ٹیپو کی راکٹ ٹیکنالوجی تھی۔ راکٹ فائز کے لیے فوجیوں کو تربیت دی جاتی تھی کہ وہ راکٹ اس زاویے سے لانچ کریں جو راکٹ کے سلنڈر کے قطر (ڈایا میٹر) اور ہدف سے فاصلے کے ذریعے معلوم کیا جاتا تھا۔
آج کی جدید فزکس اسے Pxojectile کے اصول کے نام سے استعمال کررہی ہے۔ پہیوں والے راکٹ لانچر جوایک ہی وقت میں 5سے 10راکٹ فائر کرتے تھے، بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ راکٹ ٹیکنالوجی سب سے پہلے یورپ نے ایجاد کی تھی اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ ابن سہل کو اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پہلی دفعہ” قانون انعطاف” (لاز آف ریفریکشن) دریافت کیا جسے سنیل لاء کہا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے بدقسمتی کی بات ہے کہ ان کے سائنسدان ابن سہل کے قانون کو سینل(Snell) سے منسوب کر دیا گیا۔ ریاضی اور انجنیئرنگ کے میدان میں الکرجی کے کارنامے ثنائی سروں (binomial coefficients) کی ٹیبل کی صورت میں آج تک مسلم ہیں ۔ یہ قانون درج ذیل ہے الکرجی نے binomial coefficients اور نام نہاد پاسکل ٹرائی اینگل(درحقیقت یہ مثلث چینیوں اور مسلمانوں نے پاسکل سے پہلے استعمال کی تھی لیکن اسے پاسکل نے منسوب کردیا گیا )پربھی تحقیق کی۔ ابو لقاسم زہراوی نے کندھے کی ہڈی کے اپنی جگہ سے ہل جانے (Dislocated shoulder) کا علاج بیان کیا لیکن یورپ کا ظلم دیکھیے کہ اس نے زہراوی کے طریقہ ء علاج کو کوچر کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس Kocher’s method کا نام دے دیا۔
زہراوی نے تولد و پیدائش(obsjetrics) میں مریض کی ایک حالت کو بیان کیا لیکن یورپ نے جو اپنی علمی چوریوں کی وجہ سے مشہور ہے، اسے “Walcher Position” کا نام دے دیا۔ الزہراوی نے التصریف میں ایمبرائز پیری(Ambroise pare)5 سے600 سال پہلے خون کی نالیوں طریقہ بیان کیا۔ اس نے تاریخ میں سب سے پہلے پھیپھڑوں اور دل میں نظام دوران خون یعنی پلمونری اور کارونری سرکولیشن دریافت کی لیکن اہل یورپ نے جھوٹ بولا کہ یہ یورپ میں ولیم ہاروے نے دریافت کی تھی اور آج تک ہمیں نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ ابن فرناس نے ایک آبی گھڑی” المقاتہ” بنائی۔ اس نے بے رنگ شیشہ بنانے کا ایک طریقہ معلوم کیا۔ اس نے کئیglass planispheres ایجاد کیے۔ اس نے نقائص بصارت (قریب نظری، بعیدنظری) کے علاج کے لیے عدسے(لینز) بنائے لیکن بدقسمتی سے اسے یورپ کے نام لکھ دیا گیا۔ حمد ابن ماجد کی بحری کاوشوں نے پرتگیزی جہازران واسکو ڈی گاما کو اس قابل بنایا کہ وہ ایک ایسے عربی نقشے کو استعمال کرتے ہوئے یورپ سے ہندوستان کا پہلا تجارتی سفر کر سکے جس سے اس وقت تک اہل یورپ نا واقف تھے۔ یہ کہانی یورپ میں احمد ابن ماجد کی وجہ شہرت ہے۔
تاہم دیگر مؤرخین کے مطابق واسکو ڈی گاما کی ہندوستان تک پہنچنے کے لیے ایک ہندوستانی عیسائی گجراتی نے مدد کی جس کا نام ’’کنانی‘‘تھاجب کہ بعض کے مطابق احمد بن ماجد نے مالندی کے بادشاہ کی فرمائش پر خود واسکو ڈی گاما کی اس سلسلے میں مدد کی۔ کئی اہم سمندری مہمیں مثلا مجیلان (Magellan)کا بحر ہند میں کامیاب سفر اور دیگر کی نسبت احمد ابن ماجد کی رہنمائی اور ماہر جہاز رانی کی طرف کی جاتی ہے۔ ان کے بغیر کرسٹوفر کولمبس کا امریکہ اور واسکوڈی گاما کا ہندوستان کی طرف سفر ناممکن تھا لیکن یہ سفر کرسٹوفر کولمبس کا امریکہ اور واسکوڈی گاما کی بحری مہارتوں سے منسوب کر دیے گئے۔ ریجیومونٹینس(Regiomontanus)کی 1463ء کی کتاب On trianglesمیں بیضوی علم المثلث(سفیریکل ٹرگنومیٹری)پر موجود اکثر مواد بغیر حوالے کے جابر بن افلح کی تصنیف سے لیا گیا(جو کہ ایک علمی چوری ہے)۔ یہ بات سولہویں صدی عیسوی میں جیرولیمو کارڈینو(Gerolamo Cardano) نے نوٹ کی۔
کوپرنیکس(پولینڈ کا مشہور ماہر فلکیات اور جدید سائنس کے بانیوں میں سے ایک،پیدائش 1473ء،وفات 1543ء )نے اپنی کتاب De revolutionibusکےابتدائی حصے میں جو ٹرگنومیٹری بیان کی، وہ بھی جابر بن افلح سے متاثر نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی سائنس کی تاریخ کا بہت سا حصہ اور سائنس کی کئی مشہور ایجادات اور دریافتیں ایسی ہیں جن کو یورپ سے منسوب کر دیا گیا ہے اور آج لبرل سیکولر طبقہ یورپ کے گن گاتے نہیں تھکتا۔ یہ یورپ کی طرف سے اسلامی سائنسی علم،نظریات، ایجادات اور چوریوں کی مختصر تاریخ ہے اور یہ تاریخ کا وہ حجام ہے جس میں نیوٹن،گلیلیو، اینٹونیو لیوائزے اور کوپرنیکس سمیت یورپ کی ابتدائی تاریخ کے تمام سائنسدان ننگے ہیں۔

Share on my timeline